-->

الرٹ پے اکاؤنٹ ریفرینس

Sunday, January 23, 2011

Self Management


Self Management


You are responsible for everything that happens in your life. Learn to accept total responsibility for yourself. If you do not manage yourself, then you are letting others have control of your Life. These tips will help "you" manage "you."

Here is a list of things that help you in self management and which will in turn lead you to the path of success: -

-) Look at every new opportunity as an exciting and new-life experience.

-) Be a professional who exhibits self-confidence and self-assurance in your potential to complete any task.

-) Agree with yourself in advance that you will have a good attitude toward the upcoming task.

-) Frequently ask, "Is what I am doing right now moving me toward my goals?"

-) Do it right the first time and you will not have to take time later to fix it.

-) Accept responsibility for your job successes and failures. Do not look for a scapegoat.

-) Do not view things you do as a "job." View all activities as a challenge.
 
-) Use your subconscious mind by telling it to do what you do want. Instead of telling yourself, "I can't do that very well," say, "I can do this very well."-) Give yourself points for completing tasks on your "to-do" list in priority order. When you reach 10 points, reward yourself.

-) Practice your personal beliefs. It may be helpful each morning to take 15 minutes to gather your thoughts and say a prayer.

-) Make a commitment to show someone a specific accomplishment on a certain date. The added urgency will help you feel motivated to have it done.

-) Practice self-determination, wanting to do it for yourself.

-) Believe that you can be what you want to be.

-) Never criticize yourself as having a weakness. There is no such thing. You are only talking about a present undeveloped skill or part of yourself that if you so chose, you can change. You do not have any weakness, only untapped potential.

-) Be pleasant all the time-no matter what the situation.

-) Challenge yourself to do things differently than you have in the past. It provides new ideas and keeps you interested.

-) Talk to yourself. A self-talk using positive affirmation is something that is common among all great achievers. They convince themselves that they can accomplish their goals.

-) Create your own "motivation board" by putting up notes of things you need to do on a bulletin board or special wall space. It is an easily visible way to see what you need to work on. When an item is done, remove the note. Also keep your goals listed and pictured on your board.

Click here to join nidokidos

-) Stay interested in what you are doing. Keep looking for what is interesting in your work. Change your perspective and look at it as someone outside your job would,

-) Establish personal incentives and rewards to help maintain your own high enthusiasm and performance level.
 






What Employers Want - Self Management

What exactly are employers looking for in a young employee? This resource for young people aged

13 to 19 is based on interviews with 12 key employers in central west New South Wales

http://www.nidokidos.

Wednesday, January 12, 2011

کتنا آسان ہے ۔


چھوٹی سی عمر میں دیکھی گئی حیرت انگیز چیزیں کس طرح اذہان سے چپک جاتی ہیں ۔ جمعے کا دن چھٹی کا تھا ۔ دیر سے اٹھا تھا ۔ بلیک اینڈ ٹی وائٹ ٹی وی   پر سرکاری  اور واحد چینل پر ایک ترجمہ شدہ پروگرام آ رہا تھا  …… میں سامنے بیٹھا چائے پاپا کا ناشتہ کرتے ہوئے  دیکھ رہا تھا  جس میں ایک شعبدہ باز اپنے سامنے ڈیسک کے  اوپر  موجود لوہ چون کے ذرات  کے اوپر سے ہاتھ گزارتا ہے  تو وہ ذرات کے ڈھیر اس کے ہاتھ کے اشارے پر چلنے لگتے ہیں ۔  جہاں ہاتھ لے جاتا وہ ذرات کا ڈھیر اس کے ہاتھ کے اشارے پر چلنے لگتے ۔ میں تو دیکھ کر بہت متاثر ہوا  واہ بے جان چیزیں اس کے ہاتھ کے اشارے پر حرکت کر رہی ہيں ۔ پروگرام  کے آخر میں بتایا گیا کہ یہ محض شعبدہ بازی تھی ڈیسک کے نیچے اس کا ایک لڑکا بیٹھا ہوا مقناطیس  اس کے ہاتھ کے مطابق چلا رہا تھا ۔ یہ حقیقت دیکھتے ہی مجھ بچے کے چہرے پر  معصوم سی مسکراہٹ سی آگئی ۔ ۔ مگر یہ واقعہ لا شعور میں رہ گیا ۔   کتنا آسان ہے ۔ ایک  اشارے سے چیز کو اپنی مرضی سے گھمانا  بس ذرا چھپانے کا فن آنا چاہیے ۔
لڑکپن  میں سیاست کے داؤ پیچ پڑھنے کا اتفاق ہوا تو ایک واقعے نے توجہ مبذول کرالی  کہ بھٹو کے شراب پینے پر عوام مشتعل ہو کر اس کے خلاف نعرے بازی کرنے لگی ۔ تو بھٹو نے  اپنے خلاف نکلنے والے جلوس  کے سامنے آ کر کہا کہ   ہاں میں شراب پیتا ہوں کسی کا خون نہيں پیتا ۔  آن کی آن میں ہزاروں کا  مجمع  جو ابھی اس کے خلاف تھا اس دلیری سے متاثر ہو کر بھٹو کے حق میں نعرہ لگانے لگا ۔  دل سے ایک آواز آئی …… "کتنا آسان ہے "۔   ایک اشارے سے ہزاروں کے ہجوم کو بدل دینا ۔ بس ذرا تقریر سازی کا فن آنا چاہیے ۔
 پھر وقت نے لاکھوں نوجوان کی  طرح مجھے بھی تعلیم تعلیم  کی گردان لگانے پر مجبور کیا ۔ اس تعلیم کے دوران کبھی سوچا نہيں کہ میں کسی مجمع کو آپریٹ  کرنا والا بنوں یا یا آپریٹ ہونے والے مجمع کا حصہ بنوں ۔ بس جیسے زندگی چل رہی تھی سو چل رہی تھی ۔  تعلیم منقطع کر کے چار پانچ ہزار کی مزدری  کرتا رہا  اور اسی بہتے ہوئے دھارے کا حصہ بن گیا جو کبھی سیاسی اشارے پر بہتا رہتا ہے اور کبھی کسی کے خوف سے ۔ کبھی مذہب  کی جھوٹی آن بان کے لیے چلتا تھا ۔ اک بھیڑ چال تھی  ۔ جیتا تھا تو کسی کے اشارے پر ۔ چلتا تھا تو کسی کے اشارے پر  گو کہ جان لٹادینے کی حد تک کسی سے تعلق نہیں تھا ۔ مگرایک بات ذہن میں تھی  کہ  "کتناآسان  ہے "۔  دوسروں کے کہنے پر جینا مرنا  بس جھوٹی تسلی ملنی چاہیے کہ ایک دن اس کا انعام ملے گا ۔
نو عمری کا دور ہی ایسا ہوتا ہے  ……  ہر فرقہ  نئے اور تازہ جذبات رکھنے والے نوجوانوں   کو  اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے  ۔ بڑی عمر کے لوگوں پر کوئی محنت نہيں کرتا کیوں کہ  ان کو فرقوں اور مسلکوں کی حقیقت کا پتہ ہوتا ہے ۔ ان کے ابتدائی سوالات کا جواب دینا تنظیم کے امیروں کے بس کی بات نہيں ہوتی ۔ ایسے میں  نو عمر لڑکے بہت نرم شکار ثابت ہوتے ہيں ۔ پہلے نماز نہ پڑھنے کا طعنہ دے کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں آنے پر مجبور کیا جاتا ہے پھر  ان کو کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں سے متاثر کر کے آمادہ کر لیا جاتا ہے کہ وہ ہمارے فرقے کے لیے کام کریں  ۔ جنت چاہیے تو امیر  کے اشاروں پر چلنا ضروری ہے اور یہ کام بھی  موم کے بنے ہوئے احادیث اور تفاسیر کے ذریعے ہو جاتا ہے ۔ " کتنا آسان ہے  " ۔ جنت حاصل کرنا بس  کسی کے یقین کی ڈور اپنے ہاتھ میں ہونی چاہیے ۔
قائد اعظم کا ایک واقعہ بھی یاد آیا کہ پاکستان بننے کے بعد کسی تعلیمی ادارے کے دورے پر تھے تو اک طالب علم نے قائد اعظم سے باتوں میں کہا کہ سر میں آپ کی طرح ایک بڑا لیڈر بننا چاہتا ہوں  … پاکستان کے لیے آپ کی طرح بڑے بڑے کام کرنا چاہتا ہوں ۔  تو قائد اعظم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے والد صاحب  کیاکرتے ہيں ؟اس نے کہا وہ غریب مزدور ہيں  تو قائد اعظم نے کہا کہ تب تم  میری طرح نہيں بن سکتے ۔ طالب علم نے حیران ہو کر وجہ پوچھی  تو قائد اعظم نے کہا کہ میری تنخواہ آج لاکھ روپے ماہانہ ہے ایسے میں میں جب کسی سے پاکستان کے لیے کسی سے ایک روپیہ بھی چندہ مانگتا ہوں تو  وہ شخص اس اطمینان سے مجھے روپیہ دیتا ہے کہ یہ شخص خود لاکھوں کماتا ہے  تو اسے میری دیئے ہوئے ایک روپے کا لالچ نہيں ہے  یہ مجھ سے  لیا ہوا روپیہ واقعی کسی بامقصد کام کے لیے لے رہا ہے ۔ واؤ  ۔ " کتنا آسان ہے  " قوم  کی رہ نمائی کرنا  بس ذرا ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے ۔
میں بھی تو دیکھوں ذرا اس فن کو کہ کیسے عوام کے جم غفیر کو اپنی مرضی سے چلا یا جا سکتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے لیے پہلے عوام کا حصہ بننا پڑتا ہے ۔ عوام کے لیے عوام کے درمیان رہ کر کچھ کرنا پڑتا ہے ۔ اور ان سب کے لیے پڑھنا پڑتا ہے مشاہدہ کرنا پڑتا ہے اچھا اور برا سیکھنا پڑتا ہے ۔  تعلیم حاصل کرنا پڑتا ہے ۔ بولنے کا طریقہ آنا چاہیے ۔  عوام کی فلاح کا جذبہ ہونا چاہیے ۔ سچا مسلمان ہونا چاہیے ۔اب  تو میرا ذہن بن چکا تھا کہ  مجھے بھی سیکھنا ہے یہ آسان کام ۔لیڈری کرنا ہے ۔ حکومت کا نشہ پوراکرنا ہے ۔ عوام کو اپنے ایک اشارے پر نچانا اور دوڑانا ہے ۔  تعلیم حاصل کرنا ہے ۔ مگر ایک چیز کی کمی تھی  اور وہ  کمی تھی خوش نما  نعروں کی  ۔
وہ اب مجھے مل رہا ہے۔
آج کل لوگوں کو ایک بات سکھا دی گئی ہے کہ  کوئی قانون نہیں ہے ۔ کچھ بھی قانون کے مطابق نہيں ہو رہا ہے۔ نوے فی صد جو ٹھیک ہے اس کو بھلا دینا چاہیے بس دس فیصد غلط کو ذہن میں رکھ کر پورے نظام کو بے کار اور غیر موجود سمجھنا چاہیے۔  تو ایسے میں ہمیں مایوس ہو کر ہر وہ کام کر لینا چاہیے جس سے ہمیں قانون نے روک رکھا ہے۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے ۔
بڑا ایشو اٹھا ہوا ہے توہین رسالت کا ساتھ ہی لوگوں کو اختیار بھی ملا ہوا ہے خود فیصلے کرنے کا خود ہی  کسی پر مقدمہ قائم کر سکتے ہیں کہ اس نے توہین رسالت کی ہے ۔  یا یہ ڈاکو ہے ۔ یا یہ قاتل ہے ۔خود ہی فیصلے کر سکتے ہيں کہ اس کی سزا موت ہونی چاہیے ۔ اور مزے کی بات یہ اس خود ساختہ سزائے موت پر خود عمل بھی کر سکتے ہيں ۔
کون روکنے والا ہے ۔ حکومت ، قانون ، ادارے یہ سب   تو  ہم نے بگاڑا  اوہ سوری کچھ زیادہ ہی سچ بول گیا میرا خیال ہے یہاں ہمیں حقائق سے پردہ پوشی کرنی چاہیے یہ کہہ کر سسٹم کو کسی  اور نے باہر سے آ کر بگاڑا ہے ۔ کسی خلائی مخلوق نے ہمیں اس قابل نہيں چھوڑا کہ  ہم بگڑے ہوئے نظام کو ٹھیک کر سکیں ۔  
تو ایسے میں مجمعے کو اپنے اشاروں پر چلانے کا شوق پورا کیا جا سکتا ہے ۔ ہجوم کو اپنی طاقت کا نشہ پورا کرنے کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے ۔
بس لوگوں کے ہجوم میں کھڑے اپنے دشمن کے سامنے کھڑے ہو کر ایک نعرہ لگائیں "ناموس رسالت  "جواب میں جتنے زیادہ زندہ باد کے نعرے آئیں گے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ  کے ہم خیال کتنے لوگ موجود ہيں ۔اس مجمعے میں موجود سود خور بھی زندہ باد کہے گا ۔ بے نمازی بھی زندہ باد کہے گا۔زکٰوۃ نہ دینے والا بھی زندہ باد کہے گا  ۔ موبائل چور بھی زندہ باد کہے گا ۔زانی بھی زندہ باد کہے گا ۔ اب ایک  آواز  اپنے دشمن کی طرف منہ کر کے لگائیں اس نے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ مشتعل افراد کا ہجوم    بھی آستینیں اور بھنویں چڑھا لے گا ۔ اب لوہا گرم ہے  ضرب لگائیں  کہ  …… مارو اسے  …… مار دو اسے جان سے  …… لیجیے پورا مجمع  اس آدمی  کو آن کی آن میں سفاکی سے ہلاک کر دے گا ۔ جس سے آپ کی ذاتی دشمنی تھی   … بس کسی کو یہ بولنے کا موقع نہ دیں کہ پہلے تحقیق کر لو کیاسچ ہے کیا جھوٹ ہے ۔
 "کتنا آسان ہے  "مخالفت مول لیے بغیر کسی کو ہلاک کر دینا  بس عوام کو  مشتعل کرنے کا فن آنا چاہیے ۔

Print Rahnumai